نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

ماما یہ اگــــــر کا کیا مطلب ہے؟

 جــــــا بیٹا یہ لے 20 روپے اور سامنے والی دکان سے چینی لے آ اور دکان والے سے کہہ دینا، اس کے پیسے بہت جلد مل جائیں گے🥺 نہیں ماما میں نہیں جاؤں گا ! دکان والا گالیاں دیتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کھ اپنی ماں کو بھیج اور کہتا ہے اگــــــر چاہئے تو سب کچھ مفت مل سکتا ہے😖 ماما یہ اگــــــر کا کیا مطلب ہے؟ وہ چپ ہوگئی کہتی بھی تو کیا کہتی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے . اس کی شادی ہوئے صرف پانچ سال ہوئے تھے کہ اس کے شوہر کی ایک ایکسڈنٹ میں موت ہوگئی😓 دنیا بھی کیا چیز ہے !! پہلے اس کو خاندان میں بیسٹ بھابھی کہا جاتا تھا🥀 لیکن اب اُسی عورت کو فقیرنی کہتے تھے😲 جب دیکھو منہ اٹھا کر مانگنے آجاتی ہے۔ محلے میں چند گھر اسکی مدد کر دیتے تھے . جن کا اس نے ساتھ برے حالات میں دیا تھا😤 اس کے ماں باپ زندہ نہیں تھے . اس نے بھائیوں کی مرضی کے خلاف اپنی پسند بتائی تھی انہوں نے ہاں تو کر دی اور خوش بھی تھے کہ چلو جان چھوٹ جائے گی اور اب کوئی ساتھ نہ دیتا تھا🤢 وہی دکان والا جب نیا نیا محلے میں آیا تو اس کے شوہر کے پاس آیا اور کہا میری دکان چلنے میں مدد کر دو اور انکو باجی باجی کہا کرتا تھا🤯 آج وہی اگر کہہ
حالیہ پوسٹس

پروین شاکر

 ✍️پروین شاکر بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے  موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے  بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں  کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے  جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں  بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے  لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس  سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے  بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب  دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے  سورج دماغ لوگ بھی ابلاغ فکر میں  زلف شب فراق کے پیچاک ہو گئے  جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی  لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے

موسم_الرٹ

#موسم_الرٹ🌧️🌩️💧☔ ملک میں مزید بارشوں برف باری کی پیشگوئی! 🔴 دورانیہ 7 تا 9 جنوری 2023: تازہ ترین صورتحال کے مطابق اس وقت ملک کے بالائی علاقوں  وادی کشمیر، گلگت بلتستان اور ملحقہ پہاڑی علاقوں  پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ہلکے بادل موجود ! 🔴 ملک کے بالائی سیاحتی مقامات وادی کشمیر ،گلگت بلتستان، بلوچستان اور بالائی خیبرپختونخوا میں کہیں کہیں بارشِ  اور  بلند پہاڑوں پر برف باری کا امکان. تفصیلات کے مطابق مغربی سلسلہ اس وقت ایران اور اس سے ملحقہ علاقوں پر موجود آج شام رات بلوچستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوگا جس کے زیر اثر: 🔴 گلگت ، کشمیر :                               میں اکثر مقامات پر جبکہ  خیبرپختونخوا کے بالائی،قبائلی  علاقوں اور سیاحتی مقامات پر درمیانی سے ہلکی بارشِ پہاڑوں پر برفباری کا امکان ۔ 🔴 پنجاب:                 پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ہلکے بادل چھائے رہنے کا امکان اس دوران شمالی وسطی پنجاب اور خطہ پوٹھوار میں ہلکی بارشِ کا امکان جنوبی پنجاب میں خاطر خواہ بارشِ کا کوئی امکان نہیں ۔               اس دوران ڈی جی خان، بہاولپور ،ملتان، سمیت جنوبی پنجاب میں سیلاب سے مت

خصوصی تحریر - از قلم ناہید ورک

(خصوصی تحریر (از قلم ناہید ورک) پیشکش: ادارہ اردو ادب شاعرات کی نظموں میں جدید عورت کا تصوّر پاکستان کے تاریخی، سیاسی اور قومی شعور میں خواتین اہلِ قلم کی شاعری نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ شاعری نہ صرف تحریکِ نسواں کی ترقی پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ مُلک کے سیاسی اور سماجی حالات پر بھی ت فصیلی تنقید فراہم کرتی ہے۔ عصرِ حاضر میں بیشتر خواتین شاعرات کی نظم روایت سے ہٹ کر اپنے آس پاس کے ماحول کو اپنے اندر سمو چکی ہے جو بنیادی طور پر زندگی کی سچائیوں کی تلاش ہے ـ خواتین شاعرات نے بحیثیت عورت اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کی طرف بہت توجہ کی ہے اور اپنے تانیثی تجربے، مشاہدے اور احتجاج کو اپنی آزاد نظم کا حصہ بنایا ہےـ خواتین کی آزاد نظموں میں لفظوں کی حُسن کاری کی بجائے عصری احساسات بغیر کسی لفظی تصنع کے بے باکی سے بیان کئے گئے ہیں ـ آزاد نظم لکھنے والی شاعرات نے اپنے احساس کے اظہار کیلئے علامات اور استعارے اپنے گردوپیش سے لئے ہیں جن سے بحیثیت عورت اس کو واسطہ رہتا ہے ـ اُردو ادب کی معروف و ممتاز شاعرات میں سے چند اہم نام زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہی

ہیر وارث شاہ میں گیارہ ہزار انہتر شعروں کی ملاوٹ

ہیر وارث شاہ میں گیارہ ہزار انہتر شعروں کی ملاوٹ ۔۔۔۔ ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں اگر یہ پوچھا جائے کہ یہ مصرع کس کا ہے تو اکثر لوگوں کا جواب  وارث شاہ  ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ وارث شاہ کا نہیں۔ یہ ان 11069 مصرعوں میں سے ایک ہے جومختلف شاعروں نے لکھہ کر ہیر وارث شاہ میں شامل کئے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جنڈیالہ شیر خاں کے وارث شاہ کے 1180ھ میں ملکہ ہانس کی تین سبز میناروں والی مسجد کے حجرے میں لکھے ہوئے ہیر رانجھا کے قصے کوپنجاب میں جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور کتاب کو نہیں ملی۔ قران مجید کے بعد کوئی اور کتاب اتنی نہیں چھپی۔ اس قصے کو کئی اور شعرأ نے بھی منظوم کیا۔ وارث شاہ سے بہت پہلے جھنگ سیال کے ایک دکاندار دمودر داس اروڑہ اور سعید سعیدی نے بھی یہ کیا تھا۔ دونوں کا کہنا تھا کہ ہیر رانجھے کا معاملہ ان کے سامنے کی بات ہے۔ فارسی میں کولابی نے یہ قصہ منظوم کیا۔ ہندی میں بھی لکھا گیا، پنجابی میں ہیر رانجھا کے کئی درجن قصے لکھے گئے۔ لیکن جو مقبولیت ہیر وارث شاہ کو ملی وہ کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ (رام بابو سکسینہ نے اپنی مشہور کتاب تاریخ ادبِ اردو میں لکھا تھا ’’افسوس اردو

آئن سٹائن اور اُس کی بیوی

آئن سٹائن اور اُس کی بیوی آئن سٹائن نے دوسری شادی مائلیوا نامی خاتون سے کی، اِس شادی کی دلچسپ بات وہ معاہدہ ہے جو اُس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیا، معاہدے میں طے پایا کہ اُس کی بیوی اُس کے کپڑے اور سامان ہمیشہ صاف اور بہترین حالت میں رکھے گی،تینوں وقت کا کھانا آئن سٹائن کو اُس کے کمرے میں دیا جائے گا، آئن سٹائن کے کمرے، سٹڈی روم اور خاص طور پر اُس کی میز بالکل صاف رکھی جائے گی اور کوئی فالتو چیز یہاں نظر نہیں آئے گی، جب تک آئن سٹائن کا موڈ نہ ہو بیگم اُس سے کوئی بات نہیں کرے گی، آئن سٹائن دیگر لوگوں کے سامنے اپنی بیگم سے لاتعلق رہے گا! غالباً یہی وہ مجاہدانہ اقدام ہیں جن کی بدولت آئن سٹائن نے اتنی ذہانت پائی۔  میں سوچ رہا ہوں کہ اگر آئن بھائی اپنی بیوی سے اتنا سخت رویہ نہ رکھتے اور نرمی سے پیش آتے تو صورتحال کیا ہونی تھی۔ بیوی: آئن۔۔۔وے آئن۔۔۔!!! آئن سٹائن: جی جان۔۔۔کیاہوا؟؟؟ بیوی : وے کوکنگ آئل ختم ہوگیا ہے!!! آئن سٹائن: اوہو۔۔۔جان ابھی دو دن پہلے تو لایا تھا۔ بیوی: وے یاد کر۔۔۔تجھے پانچ کلو کاڈبہ لانے بھیجا تھا اور تُو کلو والا پیکٹ لے آیا تھا۔ آئن سٹائن: اچھا تھو

گزشتہ سے پیوستہ :ڈراما - من چلے کا سودا

گزشتہ سے پیوستہ (ڈراما نمبر ۱) خدا کی بستی (ڈراما نمبر ۲) آنگن ٹیڑھا (ڈراما نمبر ۳) جانگلوس (ڈراما نمبر۴) وارث (ڈراما نمبر ۵) تنہائیاں (ڈراما نمبر۶) اندھیرا اُجالا (ڈراما نمبر ۷) دھواں (ڈراما نمبر ۸) آنچ مُرَتِّب: مہران سانول (کراچی) پیشکش: اِدارہ اُردو اَدب پاکستان ڈراما نمبر۹ من چلے کا سودا پی ٹی وی کا ایک اور کلاسیک ڈرامہ جس پر اس زمانے میں کافی اعتراضات بھی سامنے آئے۔ معروف مصنف اشفاق احمد نے اسے تحریر کیا جو روحانیت کی جانب لگاﺅ رکھتے تھے جس کا اظہار اس ڈرامے میں بھی ہوتا ہے۔ فردوس جمال، خیام سرحدی اور قوی خان کو لے کر ہدایتکار راشد ڈار نے اس ڈرامے کو تیار کیا جس میں ایک ماڈرن شخص کو اپنی زندگی سے بیزاری کے بعد صوفی ازم اور روحانیت کی جانب مائل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس سفر پر اکثر حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے تاہم اس کے باوجود یہ ڈرامہ اپنے دور میں سپر ہٹ ثابت ہوا۔  جاری ہے ۔۔۔۔۔